اللہ پاک کا حکم ہے کہ کائنات کے رموز میں غورو فکر کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی ہوس سے ہٹ کر اپنے من کی اصلاح کیلئے وقت نکالیں اور کائنات میں قدم قدم پر بکھرے واقعات کو دیکھیں اور اصلاح کریں اور جس قدر وقت میسر ہے اس کی قدر کریں اور اس کو بہتر طریقے سے استعمال کریں تاکہ اللہ کے ہاں ہر لمحہ کا حساب دے سکیں۔
سفر اس نیت سے کریں کہ اللہ پاک اس کو خیر کا ذریعہ بنائے اور دل کی گرہ کھول دے۔ احمد پور شرقیہ سے 22کلومیٹر جانب مغرب دنیائے عالم کا مشہور شہر اوچ شریف واقع ہے جو کہ ایک تاریخی شہر ہے جہاں سے سکندر اعظم گزرا تھا۔ اس وجہ سے اوچ شریف میں اور گردونواح میں کھجوروں کے باغات پائے جاتے ہیں جہاں مخدوم سید جلال الدین بخاری سرخ پوش رحمة اللہ علیہ ساتویں صدی عیسوی میں اوچ شریف تشریف لائے۔ جہاں دینی درس گاہیں‘ یونیورسٹی موجود تھی۔ علوم اسلامیہ کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ابن بطوطہ کے مطابق جب وہ اوچ شریف پہنچا تو وہاں کی جامع مسجد میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا شہر تھا تو قبرستان بھی اتنے ہی بڑے ہونے چاہئیں۔ ویسے تو اوچ شریف میں بہت ہی قدیم قبرستان موجود ہیں۔
پچھلے دنوں اوچ شریف زیارت کیلئے حاضر ہوا۔ حضرت مخدوم جلال الدین سرخ پوش رحمة اللہ علیہ کے مزار کی جانب مشرق سڑک نیچے جاتی ہے۔ اس طرف چل نکلا۔ سڑک کے دونوں جانب قبرستان ہے۔ جانب جنوب تو قبرستان چلتا رہتا ہے مگر جانب شمال کچھ سڑک کے دوسری طرف مکانات آجاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان کے درمیان میں قبروں کو مسمار کرکے سڑک بنائی گئی ہے۔ قبرستان ایک ٹیلہ پر واقع ہے اور سڑک سے تقریباً پندرہ فٹ اونچا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے جانب سڑک کافی قبریں کھل گئی ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہاں قبریں موجود ہیں۔ چھوٹی اینٹیں نظر آتی ہیں چھوٹی اینٹوں سے ویسے بھی واضح نظر آتا ہے کہ تقریباً سات سات قبریں اوپر نیچے بنی ہوئی ہیں۔ قریب جاکر غور کیا تو پتہ چلا کہ بہت ہی بوسیدہ انسانی ”گڈلی“ کا اوپر والا حصہ باہر نکلا ہوا تھا جو کہ تقریباً نیچے چوتھی قبر میں سے ظاہر ہورہا تھا اس کے سامنے والا بوسیدہ قبر سے کھوپڑی کا نچلا حصہ نکلا ہوا تھا جس پر صرف ایک دانت نظرآرہا تھا۔ اندازاً یہ قبریں تقریباً تین سو سال پرانی ہوں گی۔ اس جوڑ اور انسانی دانت کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ انسان اس زمین کے اوپر اکڑ اکڑ کر چلا کرتا تھا۔ پتہ نہیں کتنی دفعہ ان قدموں پر چل کر اللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہوا ہوگا۔ کتنی دفعہ اس نے کہا ہوگا کہ ”میں ابھی طاقت ور ہوں مجھے موت نہیں آسکتی“ اب تو اس کے نام و نسب کا بھی پتہ نہیں‘ پتہ نہیں امیر تھا یا غریب تھا۔
پتہ نہیں اس دانت سے اللہ کا رزق کتنی بار کھایا تھا۔ پتہ نہیں ان دانتوں سے حلال کھایا تھا یا حرام کھایا تھا۔ پتہ نہیں اس زبان کے ذائقہ کیلئے کتنے انسانوں پر ظلم کیا ہوگا۔ پتہ نہیں اولاد کیلئے کتنی ناجائز کمائی کے ذریعے جائیداد بنائی ہوگی۔ وہ مرگیا اس کا بیٹا مرگیا‘ اس کا بیٹا مرگیا‘ اس طرح تقریباً سات اولادیں ختم ہوگئیں۔ کوئی جاننے والا نہیں۔ قبر کی مٹی نے اس کو کھالیا‘ صرف ایک دانت ہی باقی بچا ہوا تھا۔ باقی خوبصورت چہرہ‘ خوبصورت جسم‘ سب فنا ہوگیا۔ سب کو کیڑے مکوڑے کھاگئے۔ ان کی اولادوں کو کیڑے مکوڑے کھاگئے۔ کچھ باقی نہیں بچا۔ پتہ نہیں انہوں نے قبر میں جانے کیلئے تیاری بھی کی تھی یا نہیں۔ یہ تو کوئی صاحب کشف ہی بتاسکتا ہے کہ ان کے ساتھ اللہ نے کیا معاملہ کیا۔
میں یہ سوچنے لگا کہ میں نے بھی اسی طرح اس مٹی میں جانا ہے۔ میرے جسم کو بھی قبر کی مٹی کھاجائے گی۔ میرے جسم سے بھی گوشت اتر جائےگا۔ ہڈیاں جدا ہوجائینگی اب بھی وقت ہے توبہ کرنے کا۔ اللہ توبہ ضرور قبول کرتا ہے اور قبر کو نور سے بھردیتا ہے۔
تھوڑا سا آگے چلیں تو جانب شمال سڑک کے پار ایک قبر آتی ہے وہ تقریباً تیسری تہہ کی قبر ہے اور اندر سے کھلی ہوئی ہے اور واضح طور پر جلنے کے نشان موجود ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اینٹوں کی بھٹی پکائی گئی ہو۔ سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ہے۔ مگر واقعی وہ قبر ہے۔ اینٹوں کی بھٹی نہیں ہے کیونکہ باقی اردگرد کی قبریں موجود ہیں۔ ہڈیاں بھی جل گئی ہیں۔ پتہ نہیں اس سے ایسا کونسا گناہ سرزد ہوگیا کہ اس کی قبر آگ سے بھر گئی۔ ساتھ والی قبریں ٹھیک تھیں مگر صرف ایک قبر میں آگ کے آثار موجود تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہماری قبریں محفوظ رہیں گی؟ کیا ہم رزق حلال کھارہے ہیں کیا ہم بچوں کو رزق حلال کھلارہے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری قبروں پرفاتحہ کیلئے آئیں گے۔ کیا ہمارے اعمال ایسے تو نہیں ہیں کہ ہماری قبریں آگ سے بھردی جائیں۔ اب بھی وقت ہے اے غافل انسان سنبھل جا۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ آخرت سنوار لے۔ قبر کو راحت کا ذریعہ بنالے۔ قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنالے۔ ورنہ تیرا حشر بھی ویسے ہوگا جیسے بے نشان گم نام قبریں! دعا ہے کہ اللہ ہمیں موت کی ‘ قبر کی اور آخرت کی تیاری کی توفیق دے اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے اور قبروں کو نور سے بھر دے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 255
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں